اچھا سا اختتام بھی تم سے نہ ہو سکا
اس مرتبہ سلام بھی تم سے نہ ہو سکا
سلجھیں نہ گتھیاں کبھی باہر کے خوف کی
اندر کا احترام بھی تم سے نہ ہو سکا
بچوں نے آگ اوڑھ لی چیخوں کے شور میں
ایسے میں کچھ کلام بھی تم سے نہ ہو سکا
خرچہ نہ گھر کا چل سکا حرفوں کو بیچ کر
لہجہ بدل کے نام بھی تم سے نہ ہو سکا
اپنا ہی گھر سنبھالنا بھی کام ہے کوئی
اتنا ذرا سا کام بھی تم سے نہ ہو سکا

غزل
اچھا سا اختتام بھی تم سے نہ ہو سکا
نجم الثاقب