اچھا ہوا یہ وقت تو آنا ضرور تھا
مدت سے کش مکش میں دل ناصبور تھا
دنیا کا ہوشیار بڑا ذی شعور تھا
جب تک مرے کہے میں دل ناصبور تھا
میرا قصور میری نظر کا قصور تھا
وہ جس قدر قریب تھا اتنا ہی دور تھا
اچھا ہوا جو دل کی تڑپ اور بڑھ گئی
جانا بھی ان کی بزم میں مجھ کو ضرور تھا
اس بے نشاں کا آج نشاں ڈھونڈتے ہیں آپ
سنیے وہی جو نازش اہل قبور تھا
وہ دور میری عمر کا تھا یادگار دور
جس میں کہ تیرے حسن پہ مجھ کو غرور تھا
لے آیا کون گور غریباں میں کھینچ کر
کوسوں ابھی میں منزل مقصد سے دور تھا
واعظ نے ذکر وعدۂ فردوس کیوں کیا
اس رند سے جو نشۂ وحدت سے چور تھا
اب آ کے میری لاش سے فرما رہے ہیں وہ
عالمؔ یہ تیری عقل و فراست سے دور تھا
غزل
اچھا ہوا یہ وقت تو آنا ضرور تھا
میرزا الطاف حسین عالم لکھنوی