EN हिंदी
اچھا ہے تو نے ان دنوں دیکھا نہیں مجھے | شیح شیری
achchha hai tu ne in dinon dekha nahin mujhe

غزل

اچھا ہے تو نے ان دنوں دیکھا نہیں مجھے

فیضی

;

اچھا ہے تو نے ان دنوں دیکھا نہیں مجھے
دنیا نے تیرے کام کا چھوڑا نہیں مجھے

ہاں ٹھیک ہے میں بھولا ہوا ہوں جہان کو
لیکن خیال اپنا بھی ہوتا نہیں مجھے

اب اپنے آنسوؤں پہ ہے سیرابئ حیات
کچھ اور اس فلک پہ بھروسا نہیں مجھے

ہے مہرباں کوئی جو کئے جا رہا ہے کام
ورنہ معاش کا تو سلیقہ نہیں مجھے

اے رہگذار سلسلۂ عشق بے لگام
جانا کہاں ہے تو نے بتایا نہیں مجھے

ہے تو مرا بھی نام سر فہرس جنوں
لیکن ابھی کسی نے پکارا نہیں مجھے