اچھا ہے کوئی تیر با نشتر بھی لے چلو
کچھ یادگار شہر ستم گر بھی لے چلو
سب جا رہے گلاب سے چہرے لئے ہوئے
تم آئنوں کے شہر میں پتھر بھی لے چلو
یوں کم نہیں ہے شیریں بیانی ہی آپ کی
چاہو تو آستین میں خنجر بھی لے چلو
مجھ کو کسی یزید کی بیعت نہیں قبول
نیزے یہ رکھو آؤ مرا سر بھی لے چلو
کیا جانے کیسے خواب سجانے پڑیں اے شوقؔ
آنکھو میں اک حسین سا منظر بھی لے چلو
غزل
اچھا ہے کوئی تیر با نشتر بھی لے چلو
عبدالطیف شوق