EN हिंदी
اچانک رخ بدلتی جا رہی ہے | شیح شیری
achanak ruKH badalti ja rahi hai

غزل

اچانک رخ بدلتی جا رہی ہے

خورشید رضوی

;

اچانک رخ بدلتی جا رہی ہے
زمیں محور سے ٹلتی جا رہی ہے

ستارے سرخ ہوتے جا رہے ہیں
ہر اک تقدیر جلتی جا رہی ہے

نہ جانے یہ حیات ہرزہ پیما
کہاں گرتی سنبھلتی جا رہی ہے

پرندے آشیانوں کو رواں ہیں
مسلسل شام ڈھلتی جا رہی ہے

مرے بعد اب مری خاک لحد میں
مری زنجیر گلتی جا رہی ہے