EN हिंदी
ابرو ہے کعبہ آج سے یہ نام رکھ دیا | شیح شیری
abru hai kaba aaj se ye nam rakh diya

غزل

ابرو ہے کعبہ آج سے یہ نام رکھ دیا

شوق قدوائی

;

ابرو ہے کعبہ آج سے یہ نام رکھ دیا
ہم نے اٹھا کے طاق پہ اسلام رکھ دیا

نشے میں جا گرا جو میں مسجد میں سر کے بل
زاہد نے مجھ پہ سجدے کا الزام رکھ دیا

جھچکا وہ خوف کھا کے تو میں نے تڑپ کے خود
برچھی کی نوک پر دل ناکام رکھ دیا

دلچسپ نام سن کے لگے مانگنے حسیں
کس نے ذرا سے خون کا دل نام رکھ دیا

اتنی تو اس نے کی مری دل سوزیوں کی قدر
تربت پہ اک چراغ سر شام رکھ دیا

جوڑا جو بندھ گیا تو نئے دل کہاں پھنسیں
تو نے ادھر لپیٹ کے کیوں دام رکھ دیا

آنکھ اس ادا سے اس نے دکھائی کہ میں نے شوقؔ
چپکے سے اپنا مے کا بھرا جام رکھ دیا