ابر لکھتی ہے کہیں اور گھٹا لکھتی ہے
روز اک زخم مرے نام ہوا لکھتی ہے
زرد پتوں کی چمکتی ہوئی پیشانی پر
ہے کوئی نام جسے باد صبا لکھتی ہے
جو مرے نام سے منسوب نہیں ہے لیکن
وہ فسانہ بھی مرا خلق خدا لکھتی ہے
اے مری جان محبت بھی عجب شے ہے کہ جو
کوچۂ گرد ملامت کو وفا لکھتی ہے
سن کسی ٹوٹے ہوئے دل کا وہ نوحہ تو نہیں
نغمۂ گل کہ جسے دست صبا لکھتی ہے
اک تمنا کے لئے پھرتی ہے صحرا صحرا
زندگی روز کوئی خواب نیا لکھتی ہے
شب کے سناٹے میں اک ماں کی چھلکتی ہوئی آنکھ
اپنے پیاروں کے لئے حرف دعا لکھتی ہے
شاہدؔ اس کو میں سناتا ہوں پرانی غزلیں
وہ مرے نام سے کچھ شعر نیا لکھتی ہے
غزل
ابر لکھتی ہے کہیں اور گھٹا لکھتی ہے
شاہد کمال