ابر کے ساتھ ہوا رقص میں ہے
سارے جنگل کی فضا رقص میں ہے
پاؤں ٹکتے ہی نہیں اشکوں کے
جیسے آنکھوں کی دعا رقص میں ہے
درمیاں چیختے نشانوں کے
میرا خاموش خدا رقص میں ہے
کھوکھلا پیڑ کھڑا ہے لیکن
اس کا احساس انا رقص میں ہے
اب تو ان پیروں کو غیرت آئے
وہ مرا شعلہ نوا رقص میں ہے
عشق پیچاں جو ستونوں پہ چڑھی
گھر کی ویران فضا رقص میں ہے
خوشبوئیں گونج رہی ہیں مجھ میں
آج پھولوں کی صدا رقص میں ہے
سب لکیروں سے لہو رستا ہے
یوں ہتھیلی پہ حنا رقص میں ہے
نظر سیلاب ہوئے اہل مکاں
طاق پر اب بھی دیا رقص میں ہے

غزل
ابر کے ساتھ ہوا رقص میں ہے
عشرت آفریں