ابر کا ٹکڑا کوئی بالائے بام آتا ہوا
میرے گھر بھی سبز موسم کا پیام آتا ہوا
دھوپ کی بجھتی تمازت کی سپر لیتا چلوں
پھر افق سے دھیرے دھیرے وقت شام آتا ہوا
پھر در دل پر ہوئی ہیں روشنی کی دستکیں
پھر ستارہ سا کوئی بالائے بام آتا ہوا
ایک مبہم سا تصور ایک بے چہرہ سا نام
میری تنہائی میں اکثر میرے کام آتا ہوا
کوئی قطرے میں سمندر دیکھ کر سیراب ہے
کوئی دریا سے مسلسل تشنہ کام آتا ہوا
غزل
ابر کا ٹکڑا کوئی بالائے بام آتا ہوا
شعیب نظام