ابر ہوں اور برسنے کو بھی تیار ہوں میں
تجھ کو سیراب کروں گا کہ دھواں دھار ہوں میں
اب تو کچھ اور ہی خطرات سے دو چار ہوں میں
اپنے ہی سر پہ لٹکتی ہوئی تلوار ہوں میں
تب میں اک آنکھ تھا جب تو کوئی منظر بھی نہ تھا
آج تصویر ہے تو نقش بہ دیوار ہوں میں
ہجر کے بعد کے منظر کا کنایہ ہوں کوئی
اک دھواں سا پس دیوار شب تار ہوں میں
میرا سرمایہ تو بس منظر بے منظری ہے
شہر بے عکس کا اک آئینہ بردار ہوں میں
ڈال کے سر کو گریباں میں لرز اٹھتا ہوں
مٹھی بھر خاک نہیں ایک سیہ غار ہوں میں
دیکھ شامل ہی نہیں اس میں کوئی میرے سوا
دیکھ کس قافلۂ ذات کا سالار ہوں میں
بس یہی ہے مرے ہونے کا جواز اور سراغ
اک نہ ہونے سے میاں بر سر پیکار ہوں میں
غزل
ابر ہوں اور برسنے کو بھی تیار ہوں میں
رفیق راز