EN हिंदी
ابر چھائے گا تو برسات بھی ہو جائے گی | شیح شیری
abr chhaega to barsat bhi ho jaegi

غزل

ابر چھائے گا تو برسات بھی ہو جائے گی

عزیز وارثی

;

ابر چھائے گا تو برسات بھی ہو جائے گی
دید ہوگی تو ملاقات بھی ہو جائے گی

اے دل حسن طلب مشق تصور تو بڑھا
پھر جو چاہے گا وہی بات بھی ہو جائے گی

سر جھکائے ہوئے بیٹھے ہو عبث بادہ کشو
جام اٹھاؤ گے تو برسات بھی ہو جائے گی

آج اس نے نئے انداز سے دیکھا ہے مجھے
غالباً آج کوئی بات بھی ہو جائے گی

بے خودی صرف دلیل غم پنہاں ہی نہیں
ایک دن کاشف حالات بھی ہو جائے گی

بوالہوس دہر کے رنگین مناظر سے نہ کھیل
دن ہوا ہے تو یہاں رات بھی ہو جائے گی

جان دے کر تری محفل میں کبھی جان عزیزؔ
جور کی تیرے مکافات بھی ہو جائے گی