ابھی تمام آئنوں میں ذرہ ذرہ آب ہے
یہ کس نے تم سے کہہ دیا کہ زندگی خراب ہے
نہ جانے آج ہم پہ پیاس کا یہ کیسا قہر ہے
کہ جس طرف بھی دیکھیے سراب ہی سراب ہے
ہر ایک راہ میں مٹے مۓ نقوش آرزو
ہر اک طرف تھکی تھکی سی رہ گزار خواب ہے
کبھی نہ دل کے ساگروں میں تم اتر سکے مگر
مرے لیے مرا وجود اک کھلی کتاب ہے
ہر ایک سمت ریت ریت پر ہوا کے نقش ہیں
یہاں تو دشت دشت میں ہواؤں کا عذاب ہے
غزل
ابھی تمام آئنوں میں ذرہ ذرہ آب ہے
اعجاز عبید