ابھی تک اس کو مرا انتظار ہے شاید
مری نظر پہ بہت اعتبار ہے شاید
لباس ایسا میں پہلے کبھی نہیں دیکھا
کسی کے سوگ میں اب کے بہار ہے شاید
وہ دیکھ کر مجھے مثل گلاب کھلتا ہے
کہ دل ہی دل میں اسے مجھ سے پیار ہے شاید
کئی دلوں کا مقدر عذاب ہوتا ہے
ہمارا دل بھی انہیں میں شمار ہے شاید
نگاہ ناز کا نشہ کبھی کا ٹوٹ چکا
بس اب تو آنکھوں میں اس کا خمار ہے شاید
وہ بات بات پہ اپنی مثال دیتا ہے
کچھ اپنے آپ پہ کم اعتبار ہے شاید
تنے پہ جس کے تراشے تھے ہم نے نام کبھی
خیالؔ کیجے یہی وہ چنار ہے شاید

غزل
ابھی تک اس کو مرا انتظار ہے شاید
پریہ درشی ٹھا کرخیال