EN हिंदी
ابھی تک ان کے وہی ستم ہیں جفا کی خو بھی نہیں گئی ہے | شیح شیری
abhi tak un ke wahi sitam hain jafa ki KHu bhi nahin gai hai

غزل

ابھی تک ان کے وہی ستم ہیں جفا کی خو بھی نہیں گئی ہے

شباب

;

ابھی تک ان کے وہی ستم ہیں جفا کی خو بھی نہیں گئی ہے
وہ رنجشیں بھی نہیں گئی ہیں وہ گفتگو بھی نہیں گئی ہے

نشیمن اپنا اٹھا نہ یاں سے خزاں جو آئی تو آئی بلبل
بہار رخصت ابھی ہوئی ہے گلوں کی بو بھی نہیں گئی ہے

گئی جوانی تو جائے دلبر مجھے ہے الفت ہنوز باقی
وہ التجا بھی نہیں گئی ہے وہ جستجو بھی نہیں گئی ہے

یہ رشک بلبل کہ جان دینے کو تو ابھی سے تڑپ رہی ہے
ابھی تو ہے بوئے گل چمن میں وہ کو بہ کو بھی نہیں گئی ہے

شبابؔ بوسہ لیا جو میں نے تو کیا بگڑ کر وہ شوخ بولا
ادب ذرا بھی نہیں ہے تجھ کو حیا تو چھو بھی نہیں گئی ہے