ابھی تک سانس لمحے بن رہی ہے
سمندر سے پرانی دوستی ہے
یہ جو آنکھوں میں اک دنیا کھڑی ہے
اسی میں کچھ حقیقت رہ گئی ہے
نہیں پہچانا اس نے جب سے مجھ کو
زمیں کچھ اجنبی سی لگ رہی ہے
ہوا مجھ سے بہت ہی بد گماں ہے
مگر مجھ سے ہی لگ کر چل رہی ہے
اسی کو اپنا سرمایہ سمجھ لو
اگر کچھ آس باقی رہ گئی ہے
جو کل تک صرف میرے نام میں تھی
وہ خوشبو آج تجھ کو یاد بھی ہے
غزل
ابھی تک سانس لمحے بن رہی ہے
سلطان سبحانی