ابھی تک جب ہمیں جینا نہ آیا
بھروسا کیا کہ کل آیا نہ آیا
جلے ہم یوں کہ جیسے چوب نم ہوں
چراغوں کی طرح جلنا نہ آیا
غلیلیں لا کے بچے پوچھتے ہیں
پرندہ کیوں وہ دوبارا نہ آیا
میں کیا کہتا کہ سب کے ساتھ میں تھا
عیادت کو بھی وہ تنہا نہ آیا
احاطہ چہار دیواری اندھیرا
کسی جانب بھی دروازہ نہ آیا
وہ پہلے کی طرح بچھڑا ہے اب بھی
مگر اب کے ہمیں رونا نہ آیا
خزانہ لے اڑا چوروں کا جتھا
پلٹ کر پھر علی بابا نہ آیا
غزل
ابھی تک جب ہمیں جینا نہ آیا
نشتر خانقاہی