ابھی تک چشم قاتل سے پشیمانی نہیں جاتی
ندامت خون ناحق کی بہ آسانی نہیں جاتی
حقیقت پردۂ باطل میں چھپ جائے یہ نا ممکن
پس فانوس بھی شعلوں کی عریانی نہیں جاتی
فرشتے محو حیرت رہ گئے پرواز انساں پر
وہاں پہنچا جہاں تک عقل انسانی نہیں جاتی
ستم گاری اثر کرتی نہیں رنگیں طبیعت پر
قفس میں بھی عنادل کی غزل خوانی نہیں جاتی
نہ ہو جائے کہیں زیر و زبر یہ آئینہ خانہ
نگاہ شوقؔ سے جلووں کی حیرانی نہیں جاتی
غزل
ابھی تک چشم قاتل سے پشیمانی نہیں جاتی
شوق بجنوری