ابھی سے آ گئیں نام خدا ہیں شوخیاں کیا کیا
مری تقدیر بن بن کر بدلتی ہے زباں کیا کیا
مجھے گردش میں رکھتی ہے نگاہ دلستاں کیا کیا
مری قسمت دکھاتی ہے مجھے نیرنگیاں کیا کیا
نگاہوں میں حیا ہے اور حیا میں ہے نہاں کیا کیا
طبیعت میں بسی ہیں خیر سے رنگینیاں کیا کیا
فقط اک سادگی پر شوخیوں کے ہیں گماں کیا کیا
ادائے خامشی میں بھر دیا رنگ بیاں کیا کیا
دل خوں گشتہ حسرت نے کیا کچھ گل کھلائے ہیں
بہار آگیں ہے کچھ اب کی برس فصل خزاں کیا کیا
نگاہیں بدگمانی سے کہاں جا جا کے لڑتی ہیں
مری آنکھوں میں ہیں دشمن کی بزم آرائیاں کیا کیا
تصور میں وصال یار کے سامان ہوتے ہیں
ہمیں بھی یاد ہیں حسرت کی بزم آرائیاں کیا کیا
ابھی سے بن گئی مشکل ابھی تو دور ہے منزل
مجھے رسوا کریں گی دیکھیے بیتابیاں کیا کیا
وہ جتنے دور کھنچتے ہیں تعلق اور بڑھتا ہے
نظر سے وہ جو پنہاں ہیں تو دل میں ہیں عیاں کیا کیا
غزل
ابھی سے آ گئیں نام خدا ہیں شوخیاں کیا کیا
ظہیرؔ دہلوی