EN हिंदी
ابھی رت کو بدلتے دیکھنا ہے | شیح شیری
abhi rut ko badalte dekhna hai

غزل

ابھی رت کو بدلتے دیکھنا ہے

منور عزیز

;

ابھی رت کو بدلتے دیکھنا ہے
بھری شاخوں کو جلتے دیکھنا ہے

تری بخشی ہوئی خلعت پہن کر
مجھے ہر جبر پلتے دیکھنا ہے

چراغ درد طاق جاں پہ رکھ کر
ہواؤں کو مچلتے دیکھنا ہے

ذرا اک لمس کی حدت عطا ہو
اگر پتھر پگھلتے دیکھنا ہے

پہاڑی سے پرے ان گھاٹیوں میں
کوئی چشمہ ابلتے دیکھنا ہے

بڑی معصوم خواہش ہے منورؔ
کبھی سورج نکلتے دیکھنا ہے