ابھی نہ جاؤ ابھی راستے سجے بھی نہیں
ابھی چراغ سر کہکشاں جلے بھی نہیں
جبین چرخ پہ گلگونۂ شفق مل کر
ابھی تو شام کے سائے کہیں گئے بھی نہیں
ابھی ابھی تو جمائی ہے میں نے بزم خیال
ابھی افق بہ افق بام و در سجے بھی نہیں
عروس شب نے ابھی چاندنی اتاری ہے
ابھی تو گیسوئے شب ٹھیک سے کھلے بھی نہیں
ابھی سے ترک تعلق کے مشورے تو نہ دو
ابھی تو یادوں کے سارے دیے بجھے بھی نہیں
مرے سفر میں ستارے تھے بس شریک سفر
یہ راہ رو تو مری رہگزر کے تھے بھی نہیں
غزل
ابھی نہ جاؤ ابھی راستے سجے بھی نہیں
حنیف اسعدی