EN हिंदी
ابھی مجھے اک دشت‌ صدا کی ویرانی سے گزرنا ہے | شیح شیری
abhi mujhe ek dasht-e-sada ki virani se guzarna hai

غزل

ابھی مجھے اک دشت‌ صدا کی ویرانی سے گزرنا ہے

منیر نیازی

;

ابھی مجھے اک دشت‌ صدا کی ویرانی سے گزرنا ہے
ایک مسافت ختم ہوئی ہے ایک سفر ابھی کرنا ہے

گری ہوئی دیواروں میں جکڑے سے ہوئے دروازوں کی
خاکستر سی دہلیزوں پر سرد ہوا نے ڈرنا ہے

ڈر جانا ہے دشت و جبل نے تنہائی کی ہیبت سے
آدھی رات کو جب مہتاب نے تاریکی سے ابھرنا ہے

یہ تو ابھی آغاز ہے جیسے اس پنہائے حیرت کا
آنکھ نے اور سنور جانا ہے رنگ نے اور نکھرنا ہے

جیسے زر کی پیلاہٹ میں موج خون اترتی ہے
زہر زر کے تند نشے نے دیدہ و دل میں اترنا ہے