ابھی موجود تھی لیکن ابھی گم ہو گئی ہے
نہ جانے کس جہاں میں زندگی گم ہو گئی ہے
مرے ہم راہ کیوں وہ شخص چلنا چاہتا ہے
سفر کے جوش میں کیا آگہی گم ہو گئی ہے
سبھی خوش ہیں کہ سارے گمشدہ پھر مل گئے ہیں
مجھے غم ہے کہ اب تیری کمی گم ہو گئی ہے
مرے ہونٹوں کو دریا نے کیا سیراب لیکن
حیات افروز دل کی تشنگی گم ہو گئی ہے
میں اس سے مدتوں کے بعد دوبارہ دوبارا ملا ہوں
خوشی تو ہے مگر وارفتگی گم ہو گئی ہے
یہ کن تشنہ لبوں کی فوج گزری ہے ادھر سے
کہیں کچھ کم کہیں پوری ندی گم ہو گئی ہے
ہمیشہ جو مجھے اذن سخن دیتی رہی تھی
ہجوم شور میں وہ خامشی گم ہو گئی ہے
میں اس کی یاد سے بس ایک پل کو گم ہوا تھا
مگر لگتا ہے جیسے اک صدی گم ہو گئی ہے
بہ طور رسم ہی کار جنوں باقی ہے مجھ میں
وگرنہ دشت سے وابستگی گم ہو گئی ہے
سلیمؔ اس میں زیادہ فرق تو اب بھی نہیں ہے
بس اتنا ہے کہ تھوڑی سادگی گم ہو گئی ہے
غزل
ابھی موجود تھی لیکن ابھی گم ہو گئی ہے
سلیم فراز