ابھی کم سن ہیں معلومات کتنی
وہ کتنے اور ان کی بات کتنی
یہ میرے واسطے ہے بات کتنی
وہ کہتے ہیں تری اوقات کتنی
سحر تک حال کیا ہوگا ہمارا
خدا جانے ابھی ہے رات کتنی
یہ سر ہے یہ کلیجہ ہے یہ دل ہے
وہ لیں گے خیر سے سوغات کتنی
توجہ سے کبھی سن لو مری بات
جو تم چاہو تو یہ ہے بات کتنی
طبیعت کیوں نہ اپنی مضمحل ہو
رہی یہ مورد آفات کتنی
گلستاں فصل گل میں لٹ رہا ہے
حنا آئی تمہارے ہات کتنی
ہمارے دل نہ دینے پر خفا ہو
لٹاتے ہو تمہیں خیرات کتنی
کرو شکر ستم ان کے ستم پر
کہ اتنی بات بھی ہے بات کتنی
جفا و قہر سے واقف نہ تھا میں
بڑھی الفت میں معلومات کتنی
جفا والے حساب اس کا لگا لیں
وفا کرتا ہوں میں دن رات کتنی
عبادت حضرت زاہد کروں میں
مگر اے قبلۂ حاجات کتنی
نہیں رکتے ہمارے اشک اے نوحؔ
یہ طوفاں خیز ہے برسات کتنی
غزل
ابھی کم سن ہیں معلومات کتنی
نوح ناروی