ابھی جذبۂ شوق کامل نہیں ہے
کہ بیگانۂ آرزو دل نہیں ہے
کوئی پردۂ راز حائل نہیں ہے
ستم ہے وہ پھر بھی مقابل نہیں ہے
سر آنکھوں پہ نیرنگئ بزم عالم
جسے خوف غم ہو یہ وہ دل نہیں ہے
مسرت بداماں ہوں سیلاب غم میں
کوئی موج محروم ساحل نہیں ہے
محبت سے بچ کر کہاں جائیے گا
تلاطم ہے آغوش ساحل نہیں ہے
وہ کس ناز و انداز سے کہہ رہے ہیں
شکیلؔ اب محبت کے قابل نہیں ہے
غزل
ابھی جذبۂ شوق کامل نہیں ہے
شکیل بدایونی