EN हिंदी
ابھی ہے غیر کے الطاف سے جفائے حبیب | شیح شیری
abhi hai ghair ke altaf se jafa-e-habib

غزل

ابھی ہے غیر کے الطاف سے جفائے حبیب

جعفر علی حسرت

;

ابھی ہے غیر کے الطاف سے جفائے حبیب
وہی رضا ہے ہماری جو ہے رضائے حبیب

نہ سمجھوں اپنا کسی کو رقیب رشک سے میں
وہ میرا دوست ہے جو ہووے آشنائے حبیب

وہ خواہ قتل کرے خواہ میری جاں بخشے
کہ مرگ و زیست پہ مختار ہے رضائے حبیب

نہ تیغ یار سے گردن پھراؤں میں ہرگز
کہ عین لطف سمجھتا ہوں میں جفائے حبیب

پتنگے شمع کے صدقے ہوں بلبلیں گل پر
کوئی کسی کے فدا ہو میں ہوں فدائے حبیب

بہشت کی مجھے ترغیب دے نہ تو واعظ
کسی کی مجھ کو تمنا نہیں سوائے حبیب

ہمیشہ مجھ سے وہ کہتا تھا مر کہیں حسرتؔ
ہزار شکر پذیرائی ہوئی دعائے حبیب