ابھی دشت کربلا میں ہے بلند یہ ترانہ
یہی زندگی حقیقت یہی زندگی فسانہ
ترا کام تن کی پوجا مرا کام من کی سیوا
مجھے جستجو یقیں کی تجھے فکر آب و دانہ
مرے شوق مضطرب سے ہے رواں نظام ہستی
جو ٹھہر گئی محبت تو ٹھہر گیا زمانہ
وہ فقیہ کوئے باطن ہے عدوئے دین و ملت
کسی خوف دنیوی سے جو تراش دے فسانہ
ترا خار و خس پہ تکیہ مرا عشق پر بھروسہ
مجھے برق سے محبت تجھے خوف آشیانہ
مرے جذب دل کو ماہرؔ کوئی کیا سمجھ سکے گا
مری شاعری کی حد سے ابھی دور ہے زمانہ
غزل
ابھی دشت کربلا میں ہے بلند یہ ترانہ
ماہر القادری