ابھی آنکھیں کھلی ہیں اور کیا کیا دیکھنے کو
مجھے پاگل کیا اس نے تماشا دیکھنے کو
وہ صورت دیکھ لی ہم نے تو پھر کچھ بھی نہ دیکھا
ابھی ورنہ پڑی تھی ایک دنیا دیکھنے کو
تمنا کی کسے پروا کہ سونے جاگنے میں
میسر ہیں بہت خواب تمنا دیکھنے کو
بہ ظاہر مطمئن میں بھی رہا اس انجمن میں
سبھی موجود تھے اور وہ بھی خوش تھا دیکھنے کو
اب اس کو دیکھ کر دل ہو گیا ہے اور بوجھل
ترستا تھا یہی دیکھو تو کتنا دیکھنے کو
اب اتنا حسن آنکھوں میں سمائے بھی تو کیونکر
وگرنہ آج اسے ہم نے بھی دیکھا دیکھنے کو
چھپایا ہاتھ سے چہرہ بھی اس نامہرباں نے
ہم آئے تھے ظفرؔ جس کا سراپا دیکھنے کو
غزل
ابھی آنکھیں کھلی ہیں اور کیا کیا دیکھنے کو
ظفر اقبال