اب زمین و آسماں کے سب کناروں سے الگ
گڑھ رہا ہوں اپنی دنیا ان ستاروں سے الگ
گرد میری اڑ رہی ہے چاند تاروں میں کہیں
طرز اس نے پائی ہے سب خاکساروں سے الگ
پتھروں کو آئنے میں قید کرنے کا ہنر
راہ میں نے یہ نکالی ہے ہزاروں سے الگ
چاند ہی اب تم کو کہہ کر بات کو پورا کروں
کون ڈھونڈے لفظ رائج استعاروں سے الگ
در یہ دل کا کھل گیا ہے خود بہ خود ہی آج کیوں
ان کی نظروں نے کیا ہے کچھ اشاروں سے الگ
غزل
اب زمین و آسماں کے سب کناروں سے الگ
شاداب الفت