اب یہ عالم ہے کہ جس شے پہ نظر جاتی ہے
ہو بہ ہو آپ کی تصویر نظر آتی ہے
خود کو تاریخ کسی وقت جو دہراتی ہے
میرے حالات پہ دنیا کو ہنسا جاتی ہے
یاد ایام بہاراں بھی نہیں وجہ سکوں
اب تو تزئین قفس ہی مجھے بہلاتی ہے
برق بن بن کے گری ہے مرے دل پر اکثر
وہ تجلی جو سر طور نظر آتی ہے
آج کچھ ان کی توجہ میں کمی پاتا ہوں
زندگی موت سے دو چار ہوئی جاتی ہے
دل بھر آتا ہے مرا دیکھ کے نم آنکھ کوئی
اپنے رونے پہ تو اب مجھ کو ہنسی آتی ہے
میں وہ اک ننگ زمانہ ہوں ازل ہی سے رئیسؔ
زندگی ہے کہ مرے نام سے شرماتی ہے

غزل
اب یہ عالم ہے کہ جس شے پہ نظر جاتی ہے
رئیس نیازی