EN हिंदी
اب وہ مہکی ہوئی سی رات نہیں | شیح شیری
ab wo mahki hui si raat nahin

غزل

اب وہ مہکی ہوئی سی رات نہیں

فضل احمد کریم فضلی

;

اب وہ مہکی ہوئی سی رات نہیں
بات کیا ہے کہ اب وہ بات نہیں

پھر وہی جاگنا ہے دن کی طرح
رات ہے اور جیسے رات نہیں

بات اپنی تمہیں نہ یاد رہی
خیر جانے دو کوئی بات نہیں

کچھ نہیں ہے تو یاد ہے ان کی
ان سے ترک تعلقات نہیں

پھر بھی دل کو بڑی امیدیں ہیں
گو بہ ظاہر توقعات نہیں

عشق ہوتا ہے خود بہ خود پیدا
عشق کے کچھ لوازمات نہیں

ایسے فضلیؔ کے شعر کم ہوں گے
جن میں کچھ دل کی واردات نہیں