اب وہ جو نہیں ان کی تمنا بھی بہت ہے
جینے کے لئے شورش دنیا بھی بہت ہے
اب سرد ہوا شعلۂ جاں سوز جنوں بھی
اب گرمیٔ حسن رخ زیبا بھی بہت ہے
خوش قامتی سرو کا چرچا ہے غنیمت
اب تذکرۂ نرگس و لالہ بھی بہت ہے
تم کون سے تھے ایسے سزا وار عنایت
وہ پوچھ رہے ہیں تمہیں اتنا بھی بہت ہے
یا تلخیٔ مے ہی تھی جواب غم دنیا
یا ذکر مے و ساغر و مینا بھی بہت ہے
یا گردش دوراں کو بھی خاطر میں نہ لاتے
یا اب کسی امید پہ جینا بھی بہت ہے

غزل
اب وہ جو نہیں ان کی تمنا بھی بہت ہے
سجاد باقر رضوی