EN हिंदी
اب وہاں چل کر رہیں اے دل جہاں کوئی نہ ہو | شیح شیری
ab wahan chal kar rahen ai dil jahan koi na ho

غزل

اب وہاں چل کر رہیں اے دل جہاں کوئی نہ ہو

عزیز وارثی

;

اب وہاں چل کر رہیں اے دل جہاں کوئی نہ ہو
ہم ہوں اور وہ ہوں ہمارے درمیاں کوئی نہ ہو

عشق ہے وہ عشق رسوائی ہو جس کے ساتھ ساتھ
عشق وہ کیا عشق جس کی داستاں کوئی نہ ہو

میں بھی دل والوں کی بربادی سے واقف ہوں مگر
میری صورت یوسف بے کارواں کوئی نہ ہو

مہرباں ہو جائے اک عالم ہمارے حال پر
آپ جیسا دشمن دل مہرباں کوئی نہ ہو

آپ بھی ہر شخص کو سمجھیں اگر اپنا عزیزؔ
آپ سے بھی بے سبب دامن کشاں کوئی نہ ہو