اب اسے چھوڑ کے جانا بھی نہیں چاہتے ہم
اور گھر اتنا پرانا بھی نہیں چاہتے ہم
سر بھی محفوظ اسی میں ہے ہمارا لیکن
کیا کریں سر کو جھکانا بھی نہیں چاہتے ہم
اپنی غیرت کے لئے فاقہ کشی بھی منظور
تیری شرطوں پہ خزانہ بھی نہیں چاہتے ہم
ہاتھ اور پاؤں کسی کے ہوں کسی کا سر ہو
اس طرح قد کو بڑھانا بھی نہیں چاہتے ہم
آنکھیں جب دی ہیں نظارے بھی عطا کر یارب
ایک کمرے میں زمانہ بھی نہیں چاہتے ہم
غزل
اب اسے چھوڑ کے جانا بھی نہیں چاہتے ہم
حسیب سوز