EN हिंदी
اب اس کا وصل مہنگا چل رہا ہے | شیح شیری
ab us ka wasl mahnga chal raha hai

غزل

اب اس کا وصل مہنگا چل رہا ہے

زبیر علی تابش

;

اب اس کا وصل مہنگا چل رہا ہے
تو بس یادوں پہ خرچہ چل رہا ہے

محبت دو قدم پر تھک گئی تھی
مگر یہ ہجر کتنا چل رہا ہے

بہت ہی دھیرے دھیرے چل رہے ہو
تمہارے ذہن میں کیا چل رہا ہے

بس اک ہی دوست ہے دنیا میں اپنا
مگر اس سے بھی جھگڑا چل رہا ہے

دلوں کو توڑنے کا فن ہے تم میں
تمہارا کام کیسا چل رہا ہے

سبھی یاروں کے مقطع ہو چکے ہیں
ہمارا پہلا مصرعہ چل رہا ہے

یہ تابشؔ کیا ہے بس اک کھوٹا سکہ
مگر یہ کھوٹا سکہ چل رہا ہے