اب اجڑنے کے ہم نہ بسنے کے
کٹ گئے جال سارے پھنسنے کے
تجربوں میں نہ زہر ضائع کر
سیکھ آداب پہلے ڈسنے کے
اس سے کہیو جو خود میں ڈوبا ہے
تجھ پہ بادل نہیں برسنے کے
ملنا جلنا ابھی بھی ہے لیکن
ہاتھ سے ہاتھ اب نہ مسنے کے
نقش ثانی ہیں جھلملاتے سراب
نقش اول تھے پاؤں دھنسنے کے
ایسا ویراں ہوا ہے دل اس بار
اب کے امکاں نہیں ہیں بسنے کے
روٹھے بچوں سے چھیڑ کرتا ہوں
ڈھونڈھتا ہوں بہانے ہنسنے کے
غزل
اب اجڑنے کے ہم نہ بسنے کے
بکل دیو