EN हिंदी
اب تو ہو کسی رنگ میں ظاہر تو مجھے کیا | شیح شیری
ab tu ho kisi rang mein zahir to mujhe kya

غزل

اب تو ہو کسی رنگ میں ظاہر تو مجھے کیا

عبید اللہ علیم

;

اب تو ہو کسی رنگ میں ظاہر تو مجھے کیا
ٹھہرے ترے گھر کوئی مسافر تو مجھے کیا

ویرانۂ جاں کی جو فضا تھی سو رہے گی
چہکے کسی گلشن میں وہ طائر تو مجھے کیا

وہ شمع مرے گھر میں تو بے نور ہی ٹھہری
بازار میں وہ جنس ہو نادر تو مجھے کیا

وہ رنگ فشاں آنکھ وہ تصویر نما ہاتھ
دکھلائیں نئے روز مناظر تو مجھے کیا

میں نے اسے چاہا تھا تو چاہا نہ گیا میں
چاہے مجھے اب وہ مری خاطر تو مجھے کیا

دنیا نے تو جانا کہ نمو اس میں ہے میری
اب ہو وہ مری ذات کا منکر تو مجھے کیا

اک خواب تھا اور بجھ گیا آنکھوں ہی میں اپنی
اب کوئی پکارے مرے شاعر تو مجھے کیا