اب تو لفظوں کے تقاضوں کا بھروسہ نہ رہا
اک سوا طرز خموشی کے اثاثہ نہ رہا
آج نادیدہ ستاروں نے قبائیں بخشیں
آسماں تیرا بدن اب تو برہنہ نہ رہا
کتنے صدیوں کی تھکن تو نے سمیٹی ہے زمیں
پھر بھی چہرہ ترا اس حال میں اترا نہ رہا
جسم آشفتہ نے سیلاب سنبھالے کتنے
حال کیوں ایسا ہوا ہاتھ میں قطرہ نہ رہا
اے شب تیرہ بدن یہ تو پریشانی ہے
تیری شہ رگ کا لہو آنکھ میں زندہ نہ رہا
منتشر ہو گئے ایوان تفکر عامرؔ
یعنی عرشانیٔ امکان کا زینہ نہ رہا
غزل
اب تو لفظوں کے تقاضوں کا بھروسہ نہ رہا
عامر نظر