اب تو خود سے بھی کچھ ایسا ہے بشر کا رشتہ
جیسے پرواز سے ٹوٹے ہوئے پر کا رشتہ
کوئی کھڑکی بھی نہیں اب تو جو باقی رکھتی
میرے گھر سے مرے ہم سایے کے گھر کا رشتہ
تم فرشتے ہی سہی نظریں نہ بدلو یارو
کیا فرشتوں سے نہیں کوئی بشر کا رشتہ
موڑ آنے دو ابھی سامنے آ جائے گا
کیا ہے آپس میں شریکان سفر کا رشتہ
تو مرے چاک گریباں کو نیا سورج دے
جوڑ جاؤں میں دھندلکوں سے سحر کا رشتہ
میرے ہاتھوں کی لکیریں یہ بتاتی ہیں مجھے
پتھروں ہی سے رہے گا مرے سر کا رشتہ
سب کے چہروں کی خراشیں ہیں نظر میں غوثیؔ
آئنوں سے ہے دل آئنہ گر کا رشتہ
غزل
اب تو خود سے بھی کچھ ایسا ہے بشر کا رشتہ
غوث محمد غوثی