اب تو اک پل کے لیے بھی نہ گنوائیں گے تمہیں
خود کو ہاریں گے مگر جیت کے لائیں گے تمہیں
ہم کو پتھر کے پگھلنے کا عمل دیکھنا ہے
ڈوبتے ڈوبتے آواز لگائیں گے تمہیں
دل پہ اک بوجھ ہے کچھ سوچ کے ڈر لگتا ہے
قصۂ درد کبھی اور سنائیں گے تمہیں
ظاہری آنکھیں ہمیں ڈھونڈھ کہاں پائیں گی
چشم باطن سے جو دیکھو نظر آئیں گے تمہیں
ہیں ابھی پاس بہت پاس مگر سچ کہنا
دور ہو جائیں تو کیا یاد نہ آئیں گے تمہیں
غزل
اب تو اک پل کے لیے بھی نہ گنوائیں گے تمہیں
راشد انور راشد