EN हिंदी
اب ترے لمس کو یاد کرنے کا اک سلسلہ اور دیوانہ پن رہ گیا | شیح شیری
ab tere lams ko yaad karne ka ek silsila aur diwana-pan rah gaya

غزل

اب ترے لمس کو یاد کرنے کا اک سلسلہ اور دیوانہ پن رہ گیا

عرفان ستار

;

اب ترے لمس کو یاد کرنے کا اک سلسلہ اور دیوانہ پن رہ گیا
تو کہیں کھو گیا اور پہلو میں تیری شباہت لیے اک بدن رہ گیا

وہ سراپا ترا وہ ترے خال و خد میری یادوں میں سب منتشر ہو گئے
لفظ کی جستجو میں لرزتا ہوا نیم وا سا فقط اک دہن رہ گیا

حرف کے حرف سے کیا تضادات ہیں تو نے بھی کچھ کہا میں نے بھی کچھ کہا
تیرے پہلو میں دنیا سمٹتی گئی میرے حصے میں حرف سخن رہ گیا

تیرے جانے سے مجھ پر یہ عقدہ کھلا رنگ و خوشبو تو بس تیری میراث تھے
ایک حسرت سجی رہ گئی گل بہ گل ایک ماتم چمن در چمن رہ گیا

ایک بے نام خواہش کی پاداش میں تیری پلکیں بھی باہم پرو دی گئیں
ایک وحشت کو سیراب کرتے ہوئے میں بھی آنکھوں میں لے کر تھکن رہ گیا

عرصۂ خواب سے وقت موجود کے راستے میں گنوا دی گئی گفتگو
ایک اصرار کی بے بسی رہ گئی ایک انکار کا بانکپن رہ گیا

تو ستاروں کو اپنی جلو میں لیے جا رہا تھا تجھے کیا خبر کیا ہوا
اک تمنا دریچے میں بیٹھی رہی ایک بستر کہیں بے شکن رہ گیا