اب تک تو سارے غم سے مرے بے خبر ملے
بتلاؤں حال دل جو کوئی چارہ گر ملے
لمحے حصول شوق کے بس اس قدر ملے
بھٹکے ہوئے کو راہ میں جیسے خضر ملے
ان کے بغیر کر نہ سکے زندگی بخیر
رنج و الم کے ساتھ تو ہم عمر بھر ملے
دل تھا کہیں لگا کہیں آنکھیں بچھی ہوئیں
یہ سارے اہتمام تری راہ پر ملے
کرنا ہے تازہ پھر مجھے افسانہ طور کا
اے کاش میری ان کی کہیں پر نظر ملے
گزرے ہیں عقل و ہوش و خرد کی حدود سے
ہم ہوں کہیں تو تم کو ہماری خبر ملے
رازیؔ جھکے تھے حسن چمن پر کہ ایک دن
شیرازے گل کے بکھرے ہوئے خاک پر ملے
غزل
اب تک تو سارے غم سے مرے بے خبر ملے
خلیل راضی