اب تک تو کمی کچھ نہ ہوئی داغ جگر میں
برسوں سے چراغ ایک ہی جلتا رہا گھر میں
ظاہر میں ہنسے وہ مگر آنسو نکل آئے
تھا کوئی اثر بھی مرے مرنے کی خبر میں
رنگ اڑنے نہ دوں گا تری تصویر کے رخ سے
باقی ابھی کچھ خون کے خطرے ہیں جگر میں
توسیع خیالات کی حد مل نہیں سکتی
چھوٹا سا بیاباں نظر آ جاتا ہے گھر میں
اب بڑھ نہیں سکتا غم دنیا یہ خوشی ہے
زخموں کی جگہ تک نہیں باقی ہے جگر میں
ان انکھڑیوں کے سرخ میں ڈورے نہیں بھولا
یہ بجلیاں ایسی ہیں جو اب تک ہیں نظر میں
نا واقف انجام کا دل ہوتا ہے کتنا
خود رو دیا دیکھے جو کبھی زخم جگر میں
اس دور میں آپ آئے تھے اے حضرت جاویدؔ
جس عہد میں کچھ فرق نہ تھا عیب و ہنر میں
غزل
اب تک تو کمی کچھ نہ ہوئی داغ جگر میں
جاوید لکھنوی