EN हिंदी
اب تک لہو کا ذائقہ خنجر پہ نقش ہے | شیح شیری
ab tak lahu ka zaiqa KHanjar pe naqsh hai

غزل

اب تک لہو کا ذائقہ خنجر پہ نقش ہے

سلطان اختر

;

اب تک لہو کا ذائقہ خنجر پہ نقش ہے
یہ کس کا نام دست ستم گر پہ نقش ہے

بارش بھی آفتاب کا دامن نہ دھو سکی
کچھ گرد اب بھی دھوپ کے شہ پر پہ نقش ہے

تیرا ہی عکس رات کے آئینے میں اسیر
تیرا ہی خواب نیند کے بستر پہ نقش ہے

جس کو ترے لبوں کا تصور نہ دھو سکے
وہ تلخیٔ حیات بھی ساغر پہ نقش ہے

آنگن سے دستکوں کی صدا لوٹ آئے گی
ویرانیوں کا نام ہر اک گھر پہ نقش ہے

پانی کی یہ لکیر نہیں ہے جو مٹ سکے
شیشے کی داستان تو پتھر پہ نقش ہے

جکڑا ہوا ہے پچھلے جنم کے حصار میں
ماضی کا سانحہ دل اخترؔ پہ نقش ہے