EN हिंदी
اب تک جو جی چکا ہوں جنم گن رہا ہوں میں | شیح شیری
ab tak jo ji chuka hun janam gin raha hun main

غزل

اب تک جو جی چکا ہوں جنم گن رہا ہوں میں

سرفراز آرش

;

اب تک جو جی چکا ہوں جنم گن رہا ہوں میں
دنیا سمجھ رہی ہے کہ غم گن رہا ہوں میں

متروک راستے میں لگا سنگ میل ہوں
بھٹکے ہوئے کے سیدھے قدم گن رہا ہوں میں

ٹیبل سے گر کے رات کو ٹوٹا ہے اک گلاس
بتی جلا کے اپنی رقم گن رہا ہوں میں

تعداد جاننا ہے کہ کتنے مرے ہیں آج
جو چل نہیں سکے ہیں وہ بم گن رہا ہوں میں

میں سنتری ہوں عورتوں کی جیل کا حضور
دو چار قیدی اس لیے کم گن رہا ہوں میں

آرشؔ صراحی دار سی گردن کے سحر میں
زمزم سی گفتگو کو بھی رم گن رہا ہوں میں