EN हिंदी
اب تک علاج رنجش بے جا نہ کر سکے | شیح شیری
ab tak ilaj-e-ranjish-e-be-ja na kar sake

غزل

اب تک علاج رنجش بے جا نہ کر سکے

ابو محمد سحر

;

اب تک علاج رنجش بے جا نہ کر سکے
اک عمر میں بھی حسن کو اپنا نہ کر سکے

تھی ایک رسم عشق سو ہم نے بھی کی ادا
دنیا میں کوئی کام انوکھا نہ کر سکے

کل رات دل کے ساتھ بجھے اس طرح چراغ
یادوں کے سلسلے بھی اجالا نہ کر سکے

اب اس سے کیا غرض ہے کہ انجام کیا ہوا
یہ تو نہیں کہ تیری تمنا نہ کر سکے

خود عشق ہی کو دے گئے رسوائیوں کے داغ
وہ راز حسن ہم جنہیں افشا نہ کر سکے

ذوق جنوں کو راس نہیں تنگ بستیاں
صحرا نہ ہو تو کیا کوئی دیوانہ کر سکے

ہر امتیاز اس کے لیے ہیچ ہے سحرؔ
جو اپنی زندگی کو تماشا نہ کر سکے