EN हिंदी
اب سوچ رہے ہیں یہاں کیا کیا نہیں دیکھا | شیح شیری
ab soch rahe hain yahan kya kya nahin dekha

غزل

اب سوچ رہے ہیں یہاں کیا کیا نہیں دیکھا

محمد مستحسن جامی

;

اب سوچ رہے ہیں یہاں کیا کیا نہیں دیکھا
نکلے جو تری سمت تو رستہ نہیں دیکھا

تو نے کبھی آنکھوں سے بہائے نہیں آنسو
تو نے کبھی دریاؤں کو بہتا نہیں دیکھا

پھر یوں ہے کہ سورج کو نہیں جانتا وہ شخص
جس نے مرے آنگن کا اندھیرا نہیں دیکھا

کرتے ہیں بہت بات یہ ویرانئ دل کی
ان لوگوں نے شاید مرا حلیہ نہیں دیکھا

گو گردش دوراں میں ہیں دن رات مگر یاں
ہے ایسی سیاہی کہ سویرا نہیں دیکھا

اس شخص کو آیا نہیں ملنے کا سلیقہ
اس شخص نے اس سال بھی میلہ نہیں دیکھا