اب صلیبیں شاہراہوں پر سجا دی جائیں گی
عکس رہ جائیں گے تصویریں ہٹا دی جائیں گی
بات کرنے کو ترس جائیں گے ارباب وفا
بندشیں اتنی زبانوں پر لگا دی جائیں گی
جن کتابوں میں وفا کا ذکر آئے گا نظر
صبر کیجے وہ کتابیں بھی جلا دی جائیں گی
آپ اور تم کا تصور بھی فنا ہو جائے گا
جتنی قدریں ہیں ادب کی سب مٹا دی جائیں گی
منتظر رہئے محبت کا پیمبر آئے گا
جتنی شمعیں بجھ چکی ہیں سب جلا دی جائیں گی
پی رہے ہیں جن میں گوہرؔ لوگ انساں کا لہو
ایسی تعمیروں کی بنیادیں ہلا دی جائیں گی
غزل
اب صلیبیں شاہراہوں پر سجا دی جائیں گی
گوہر عثمانی