اب سفر رات میں ہی کرتے ہیں
لوگ اب روشنی سے ڈرتے ہیں
رہ کے اک شہر بے چراغ میں ہم
روز جیتے ہیں روز مرتے ہیں
یاد آتے ہیں سارے پس منظر
نقش ماضی کے جب ابھرتے ہیں
زندگی یوں بکھر گئی جیسے
ٹوٹ کر آئنے بکھرتے ہیں
گھر کی بوسیدگی چھپانے کو
رنگ دیوار و در میں بھرتے ہیں
اپنے گھر کے قریب سے اکثر
اجنبی بن کے ہم گزرتے ہیں
شام ہوتی ہے گھر چلو احسنؔ
سائے دیوار سے اترتے ہیں
غزل
اب سفر رات میں ہی کرتے ہیں
نواب احسن