اب رشتوں میں گہرائی
بہتے پانی پر کائی
تم کمروں میں بند رہے
دھوپ نہیں تھی ہرجائی
جب ہونٹوں سے چھوتے تم
لگتا میں ہوں شہنائی
تم سے مل کر دیر تلک
اچھی لگتی تنہائی
بچوں سے گھر چہکے یوں
جیوں کوئل سے امرائی
تنہا کالی راتوں کی
اف کیوں بڑھتی لمبائی
بیتی بات ادھیڑو مت
نیرجؔ سیکھو ترپائی
غزل
اب رشتوں میں گہرائی
نیرج گوسوامی