EN हिंदी
اب رہا کیا ہے جو اب آئے ہیں آنے والے | شیح شیری
ab raha kya hai jo ab aae hain aane wale

غزل

اب رہا کیا ہے جو اب آئے ہیں آنے والے

بسملؔ  عظیم آبادی

;

اب رہا کیا ہے جو اب آئے ہیں آنے والے
جان پر کھیل چکے جان سے جانے والے

یہ نہ سمجھے تھے کہ یہ دن بھی ہیں آنے والے
انگلیاں ہم پہ اٹھائیں گے اٹھانے والے

کون سمجھائے نہ اٹھلا کے سر رہ چلیے
ہیں یہ انداز گنہ گار بنانے والے

پوچھنے تک کو نہ آیا کوئی اللہ اللہ
تھک گئے پاؤں کی زنجیر بجانے والے

کہیں رونا نہ پڑے تجھ کو زمانے کے ساتھ
ارے او وقت کی جھنکار پر گانے والے

آپ انداز نظر اپنا بدلتے ہی نہیں
اور برے بنتے ہیں بے چارے زمانے والے

پوچھتی ہے در و دیوار سے بیمار کی آنکھ
اب کہاں ہیں وہ مرے ناز اٹھانے والے

بخدا بھول گئے اپنی مصیبت بسملؔ
یاد جب آئے محمد کے گھرانے والے